حضرت ابو حفصہ بیان کرتے ہیں کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا۔اے میرے بیٹے تم ایمان کی حقیقت نہیں پاسکتے یہاں تک کہ تم یقین کرلو کہ تم کو جو (راحت یا تکلیف) پہنچی ہے وہ تم سے ٹل نہیں سکتی تھی اور جو تم سے ٹل گئی ہے وہ تمہیں مل نہیں سکتی تھی میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا تو اسے کہالکھو اس نے عرض کی: میرے پروردگار! میں کیا لکھوں؟ فرمایا: ہر چیز کی تقدیر لکھو حتی کہ قیامت قائم ہوجائے۔ اے میرے بیٹے میں نے رسولؐ کو فرماتے سنا ہے کہ جو شخص اس عقیدہ (تقدیر) کے علاوہ (کسی اور عقیدہ پر) فوت ہوا تو وہ مجھ میں سے نہیں۔
(ابوداوُ د)(سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب السنۃ 4700)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کے پاس بحث کی موسیٰ ؑ نے فرمایا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں نقصان پہنچایا (محروم رکھا) اور ہمیں جنت سے نکلوایا۔ آدمؑ نے فرمایا آپ موسیٰ ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی ہم کلامی کے لئے منتخب کیا اور اپنے ہاتھ سے تمہارے لئے تورات لکھی کیا تم مجھے ایسے مسئلہ کے بارے ملامت کررہے ہو جیسے میری تخلیق سے چالیس برس پہلے ہی میرے متعلق لکھ دیا تھا۔ پس آدم علیہ السلام (دلیل کے ذریعے) موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔
(سنن ابی داوُ د، جلد سوئم کتاب السنۃ 4701)حضرت مسلم بن یسار الجھنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت واذا اخذ ربک منبنی آدم من ظہورہم (جب تیرے رب نے اولاد آدم کو ان کی پشت سے نکالا) پھر قعبی نے پوری آیت تلاوت کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ان سے اس آیت کے بارے پوچھا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔بے شک اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا فرمایا پھر اپنا داہنا ہاتھ ان کی پشت پر پھیرا تو وہاں سے ان کی اولاد نکالی تو فرمایا۔میں نے انہیں جنت کے لئے جنتیوں والے اعمال کرنے کے لئے پیدا کیا ہے پھر ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو وہاں سے دوسری اولاد نکالی تو فرمایا یہ آگ کے لئے ہیں اور یہ جہنمیوں والے عمل کریں گے۔پس ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسولؐ! تو پھر عمل کاہے کے لئے ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔جب اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو جنت کے لئے پیدا کیا تو اسے جنتیوں والے اعمال پر لگادیا حتی کہ اس کی موت جنتیوں والے عمل پر آتی ہے تو وہ (اللہ تعالیٰ) اسے اس کے اس عمل کی بدولت جنت میں داخل کرے گا اور جب کسی شخص کو آگ کے لئے پیدا کرتا ہے تو اسے جہنمیوں والے اعمال پر لگادیتا ہے حتی کہ اس کی موت بھی جہنمیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر آتی ہے تو وہ اسے اس (عمل) کی بدولت آگ میں داخل کرے گا۔
(سنن ابی داوُ د، جلد سوئم کتاب السنۃ 4703)حضرت عمیررضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ عملیات جنہیں ہم شفا کے لئے پڑھتے ہیں اور وہ دوائیں جنہیں صحت کے حصول کے لئے ہم استعمال کرتے ہیں اور وہ چیزیں جنہیں اپنی حفاظت کے طور پر ہم استعمال کرتے ہیں مثلا (ڈھال، دم، وغیرہ) کیا یہ چیزیں اللہ کی تقدیر کو بدل دیتی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا یہ بھی اللہ کی تقدیر کے مطابق ہیں۔
(مشکوۃ ، کتاب الایمان بالقدر)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے آپؐ کے ہاتھوں میں 2 کتابیں تھیں آپؐ نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ 2 کتابیں کیا ہیں؟ ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ ہمیں معلوم نہیں آپؐ ہی بتادیجئے۔ آپؐ نے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے جس میں جنت میں جانے والوں کے نام، ان کے آباؤ اجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور پھر آخر میں اسے مکمل کردیا ہے لہذا اس میں کمی یا زیادتی نہیں ہوسکتی پھر آپؐ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی کتاب ہے جس میں جہنم میں جانے والوں کے نام ان کے آباؤ اجداد اور ان کے قبائل کے نام ہیں پھر آخر میں اسے مکمل کردیا ہے لہذا اس میں نہ تو زیادتی ہوسکتی ہے اور نہ ہی کمی۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر یہ چیز پہلے طے ہوچکی ہے تو پھر (نیک) عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپؐ نے فرمایا۔شریعت اسلام کے مطابق اپنے اعمال کو اچھی طرح مضبوط کرو اللہ سبحانہ و تعالٰی کا قرب حاصل کرو اس لئے کہ جنت میں جانے والوں کا خاتمہ اہل جنت کے اعمال پر ہوتا ہے خواہ زندگی میں اس نے کیسے ہی عمل کئے ہوں۔اور جہنم میں جانے والوں کا خاتمہ اہل جہنم کے اعمال پر ہوتاہے خواہ ان کے اعمال جیسے رہے ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔تمہارے رب کو پہلے سے ہی معلوم ہے کہ ایک جماعت جنتی ہے اور ایک جماعت جہنمی۔
(ترمذی ،باب الایمان بالقدر)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ چار چیزوں پر ایمان نہ لائے۔ ۱۔وہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں۔ ۲۔یہ بھی گواہی دے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا سچا رسولؐ ہوں۔ ۳۔موت اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر یقین رکھے۔ ۴۔تقدیر پر ایمان رکھے۔
(ترمذی، ابن ماجہ باب الایمان بالقدر)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ کثرت کے ساتھ یہ دعا فرماتے تھے۔ یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک(ترجمہ: اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھے) میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم آپؐ پر ایمان لائے اور آپؐ کے لائے ہوئے دین اور شریعت پر بھی ایمان لائے تو کیا اب بھی آپؐ ہمارے بارے میں ڈرتے ہیں؟ (کہ کہیں ہم گمراہ نہ ہوجائیں) آپؐ نے فرمایا بے شک دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے لہذا اللہ جس طرح چاہتا ہے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔
( ترمذی، ابن ماجہ باب الایمان بالقدر)حضرت مطربن عکامس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب اللہ رب العزت کسی آدمی کے بارے میں فیصلہ فرماتے ہیں کہ وہ فلاں علاقہ میں فوت ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کو اس علاقہ کی طرف لے جانے کا کوئی سبب بنادیتے ہیں۔
(احمد، ترمذی باب الایمان بالقدر)حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ (جنت یا جہنم میں جانے کے اعتبار سے) مومنوں کے (نابالغ فوت ہوجانے والے) بچوں کا حکم کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ جنت میں ہوں گے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ بغیر اعمال کے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے کہ انہوں نے (بالغ ہوکر) کیا اعمال کرنے تھے۔ میں نے عرض کیا مشرکین کے بچوں کا حکم کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا وہ اپنے والدین کے ساتھ جہنم میں ہونگے ۔ میں نے تعجب سے پوچھا کوئی عمل کئے بغیر؟ آپؐ نے فرمایا۔اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے کہ انہوں نے (بالغ ہوکر) کیا اعمال کرنے تھے۔
(ابوداوُد، باب الایمان بالقدر)ابن دیلمی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے میں نے ابی کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ شکوک و شبہات ہیں مجھے حدیث بیان کریں تاکہ اللہ رب العزت میرے دل کے شکوک و شبہات کو ختم کردے۔ ابی بن کعبؓ نے کہا۔ اگر اللہ عزوجل تمام آسمان اور زمین والوں کو عذاب میں گرفتار کرے تو ان کو عذاب میں گرفتار کرنے سے اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہوگا اور اگر ان سب پر اپنی رحمت نازل فرمائے تو اس کی رحمت ان کے لئے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہوگی اور اگر تم احد پہاڑ کے برابر اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو اللہ تم سے اس کو قبول نہیں کرے گا۔ جب تک کہ تمہارا تقدیر پر ایمان نہ ہو اور تمہیں یقین کرنا چاہئے کہ جو خوشی یا غمی تمہیں ملی ہے وہ تمہاری تقدیر میں نہیں لکھی ہوئی تھی۔ اگر تم اس حالت میں مرجاؤ کہ تمہارا تقدیر پر ایمان نہ ہو تو یقیناًجہنم میں جاؤ گے۔ پھر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گیا انہوں نے بھی یہی جواب دیا پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا انہوں نے بھی آپؐ کی یہی حدیث بیان کی۔
(مشکوۃ ، باب الایمان بالقدر۱۸)« Previous 123 Next » 25 |